- سوال
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ موجودہ دور میں کچھ مواقع پر ”محفل سماع ” کا اہتمام کیا جاتا ہے۔جس میں نعت شریف ،منقبت اور قوالی گائی جاتی ہے جسے سن کر لوگ جھومتےہیں ۔محفل سماع میں دف کی بجائے ڈھول بجائے جاتے ہیں جسکی تال پر لوگ جھومتے رہتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ۔(۱) محفل سماع کسے کہتے ہیں ؟کیا موجودہ دور میں محفل سماع کرانا درست ہے؟(۲) کیا محفل سماع میں دف کی بجائے ڈھول بجانا درست ہے؟(۳)ایسی محفل سماع میں ایک باشرع آدمی کا شریک ہونا کہاں تک درست ہے؟برائے کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
- فقط و السلام حاجی شبیر احمد (ٹین والے)
- جواب
- الجواب بعون الملک العلام الوھاب
(١۔ ٢) صورت مسئولہ میں محفل سماع یا قوالی وہ جو مع مزامیر ہو، اگر مزامیر نہ ہوں تو وہ قوالی نہیں بلکہ اسے محفل میلاد یا محفل نعت کہا جائے گا ۔بغیر مزامیر قوالی کا تصورہی نہیں بلکہ قوالی مزامیر کے ساتھ ہی ہوتی ہے سماع مع مزامیر جو لہولعب سے بری ہو بلاشبہ جائز ہے ایسی قوالی سننا مباح جس پر سبھی کا اتفاق ہے نیز قوال نہ امرد ہونہ عورت بلکہ مرد ہواور اشعار کفریہ وخلاف شرع نہ ہوں قوالی کے اشعار حمد و نعت ، تبلیغ دین اسلام ، اوراحکام قرآن اور واقعات اسلام، معجزات اور صحابہ کرام اور اہلِ بیت اطہارکرام اور اولیاء اکرام کی سیرت ومنقبت پر مشتمل ہوں اور قوالی کرنے والے اور سننے والے سنانے والےغیر فاسق ہوں اور اس نوعیت پر سننا سنانا جائز ہوگا اور ایسی قوالی بلاشبہ مباح اور صوفیاء کرام کی روحانی غذا ہے۔مجتهد في المسائل اعلیٰ حضرت الشاه أمام أحمد رضا خان رضي الله عنہ قوالی کی شرعی حیثیت کی مکمل تحقیق پر فرماتے ہیں: یہ بات فائدہ دیتی ہے کہ آلہ لہو بعینہ(بالذات) حرام نہیں بلکہ ارادہ وعمل لہو کی وجہ سے حرام ہے خواہ یہ سامع کی طرف سے ہو یا اس سے مشغول ہونے والے کی طرف سے ہو ،”اضافت “سے یہی معلوم ہوتا ہے،کیا تم دیکھتے نہیں کہ کبھی اس آلہ لہو کو بعینہ بجانا اور استعمال کرنا حلال ہو تا ہے اور کبھی حرام ، اور اس کی وجہ اختلاف نیت ہے ، پس کاموں کے جائز اور ناجائز ہونے کا دارومدار ان کے مقاصد اور نیت پر مبنی ہوتا ہے ،اس میں ہمارے سادات صوفیہ کی دلیل موجو د ہےکہ وہ سماع سے ایسے رموز(تبلیغ) کا ارادہ رکھتے ہیں کہ جن کو وہ خود بھی اچھی طرح جانتے ہیں لہذا اعتراض کرنے والے انکار کرنے میں جلدی نہ کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی برکت سے محروم ہو جائے ، کیونکہ وہ پسندیدہ سادات ہیں پس ان کی امداد سے اللہ تعالی ہماری مدد فرمائے ،اور ان کی نیک دعاؤں اور برکات کا ہم پر اعادہ فرمائے یعنی انھیں ہم پر لوٹادے ۔(فتاویٰ رضویہ ج ٢٤ص ١ مكتبہ المدينۃ) اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی اپنا ایک فتویٰ ان الفاظ سے شروع فرماتے ہیں: مزامیر یعنی آلات لہو و لعب بر وجہ لہو و لعب بلاشبہ حرام ہیں۔(فتاویٰ رضویہ) بر وجہ لہو و لعب کی قید سے ثابت ہوگیا کہ سماع مع مزامیر مطلقاحرام نہیں ہے۔ بلکہ مزامیر کا دار و مدار استعمال پر ہے۔ نیز علامہ شامی لکھتے ہیں: آلات لہو و لعب حرام لذاتہ نہیں ہیں، بلکہ ارادۂ لہو کی وجہ سے حرام ہیں، انکے سننے کی نیت کے بدلنے سے حکم بدل جاتا ہے۔ کیوں کہ احکام کا دار و مدار نیتوں پر ہوتاہے، (ردالمحتار جلد۵ص۲۲۲)یاد رہے کہ جہاں جہاں بھی احادیث یا اقوال بزرگان دین میں سماع کے بارے میں حرام لکھا ہے وہاں وہاں پر ضرور بالضرور بر وجہ لہو و لعب کی قید ملحوظ رہے گی۔اعلی ٰحضرت فرماتے ہیں کہ اپنی طرف سے بُری نیت قرار دے لینا بُرے ہی دل کا کام ہے۔ ائمہ دین فرماتے ہیں: الظن الخبیث انما ینشا من القلب الخبیث۔ یعنی، خبیث گمان خبیث ہی دل سے پیدا ہوتا ہے۔( فتاویٰ رضویّہ) تو اب کوئی بھی شخص، خانقاہی شرعی سماع مع مزامیر کے بارے میں بُرا گمان پیدا نہ کرے ورنہ وہ خبیث القلب ٹھہرے گا ائمہ دین کےا قوال کے مطابق۔ حرام کا اطلاق کس قسم کی موسیقی پر ہونا چاہیے اسکی وضاحت ملّا جیون رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر احمدی میں یوں فرمائی ہے۔ کہ ہمارے زمانے کے لوگ (موسیقی کی)مجالس منعقد کرتے ہیں اس میں شراب پیتے اور فواحش کا ارتکاب کرتے ہیں فاسقوں اور لونڈوں کو اکھٹّا کرتے ہیں جس سے محض نفسانی خواہشات کی تکمیل ہوتی ہے ان مکروہ اعمال کے سخت گناہ ہونے اور انہیں جائز سمجھنے کے کفر ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ (تفسیر احمدی)ثابت ہوا کہ چاہےحضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ ہوں یا محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاء قدس سرہٗ ہوں یا کوئی ہمارے دوسرے فقہاء ہوں جنہوں نے جہاں بھی مطلقاسماع مع مزامیر کو حرام لکھا یا کہا ہے وہاں پر وجہ لہو و لعب کی قید ضرور ملحوظ رکھی جائیگی۔ خود محبوب الہی قدس سرہٗ نے فرمایا کہ سماع نہ مطلقا جائز ہے اور نہ ہی مطلقا حرام ہے۔ لوگوں نے دریافت کیا کہ حضور سماع کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا جیسے سننے والے ہوں۔(اخبار الاخیار) فتاوٰی عتاہیہ میں ہے کہ حضرت امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ سے غنا کی بابت پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ جائز ہے۔ اور حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی ایساہی ہے اور اسی پر فتویٰ ہے۔ اور جو روایات حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے حرمت سماع کی منقول ہیں اُنسے مراد آلات لہو ہیں، جو غنا آلات لہو کے ساتھ ہو وہ ناجائز ہے اور آلات لہو نہ ہوں وہ جائز ہے، اگر سماع کو علی العموم حرام کہا جائے تو احادیث صحیحہ کا انکار لازم آتاہے۔ (فتاوٰی عتاہیہ)حضرت ابوطالب مکّی نے لکھا ہے کہ سلف سے اباحتِ سماع ثابت ہے۔ امام غزالی فرماتے تھے کہ جس نے سماع کا علی العموم انکار کیا تو اسنے بعض صحابہ و تابعین و اولیاء سے انکار کیا۔ حضرت ابن مجاہد آپ دعوت قبول نہیں کرتے تھے جسمیں سماع نہ ہو۔ فقہاء کا اجماع ہے کہ جس سماع میں فسق و لہو نہ ہو مباح ہے پس مطلقا سماع کو حرام کہنا گناہ ہے۔حضرت ابو طالب مکّی نے کہا کہ ہمیشہ اہل مدینہ سماع سنتے تھے۔(لطائفِ اشرفی)شرح بزودی میں ہے کہ جس سماع کی بابت ہمارے علماء کو اختلاف ہے وہ لہو بازی ہے جسمیں فاسق شراب نوش اور تارکین نماز فاسقین جمع ہوں اور اگر ایسا نہیں تو سماع حلال ہے۔(شرح بزودی)خلاصہ یہ ہے محبوب الٰہی حضور نظام الدین اولیاء قدس سرہٗ کا مطلقًافرمانا کہ۔ سماع حرام است، فقہاء کے اجماع کی روشنی میں اسکا مطلب یہ ہوگا کہ، سماع بر وجہ لہو و لعب حرام است، ورنہ اجماعِ فقہاء اور بہت ساری احادیث کا انکار لازم آئیگا اور یہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی ذات سے بہت بعید ہے۔فقیہ اعظم ہنداستاذالمحدثین حضرت مفتی الحاج محمد عبد الرشید فتح پوری قدس سرہ بانی جامعہ عربیہ ناگپورکے برادر اصغر معتمد الاسلام حضرت علامہ مفتی حافظ محمد عبد الحفیظ فتح پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ کچھوچھہ مقدسہ کے مشائیخین کرام قوالی مع مزامیر سنتے ہیں شیخ المشائخ ہمشبیہ غوث اعظم مولانا شاہ علی حسین اشرفی میاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور ان کے شہزادگان مع مزامیر قوالیاں سنتے ہیں اور یہ بات اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کے علم میں تھی اور اس کے باوجود سرکار اعلیٰ حضرت ان کی غایت درجہ تعظیم وتکریم فرماتے اور ان سب کے لیے قیامِ تعظیمی فرماتے دست بوسی کرتےبلکہ نے حضرت اشرفی میاں کے صاحبزادہ محبوب المشائخ حضرت مولانا سیداحمد اشرف رحمۃ اللہ علیہ کو اعلیٰ حضرت نے اپنی خلافت سےبھی نوازا اورحضور حافظ بخاری رحمۃ اللہ علیہ جوسماع مع مزامیر کے پابند تھے۔اس کے باوجود اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ نے آپ کو مجلس علماء اہلسنت کا صدر منتخب فرمایا۔
اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت نے شیخ المشائخ ہمشبیہ غوث اعظم مولانا شاہ علی حسین اشرفی میاں قدس سرہ کی شان میں اشعار تحریر فرمائے ملاحظہ فرمائیں۔
- سیرت پاک کہ خلق نبوی کا ساماں……..صورت خوب کہ ہم صورت غوث جیلاں
- آپ کی ذات کہ اک ثانی شاہ سمناں……..اشرفی اے رخت آئینہ حسن خوباں
- اے نظر کرده و پروردہ سہ محبوباں
علاوہ ازیں اعلیٰ حضرت کے پیر ومرشد حضورسیدآل ِ رسول مارہروی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت اشرفی میاں کو اپنی خلافت سے نوازا۔ ہم سبھی نے دیکھا کہ سرکار اعلیٰ حضرت کے دونوں شہزادےحضرت حجۃ الاسلام حامد میاں علیہ الرحمہ اور حضور مفتی اعظمِ ہند علیہ الرحمہ کا بھی یہی طریقہ رہا میں نےخود اپنی آنکھوں سے دیکھاکہ حضرت مفتی اعظم ہندرحمۃ اللہ علیہ کے آپ حضرت محدث اعظم ہند علیہ الرحمۃ کے لیے قیامِ تعظیمی فرماتے اور انکے ساتھ اسٹیج پر رہتے اور تقریر کرواتے نیز عرس رضوی کے علاوہ سیکڑوں اجلاس میں دونوں ایک ساتھ ایک ہی اسٹیج پر تشریف فرما ہوتےاوراختتام اجلاس پر حضرت محدث اعظم ہند سے ہی دعا کرواتے ۔یہ بات ذہن میں رہے کہ قوّالی مع مزامیر جائز نہ ہوتی تو سرکار اعلیٰ حضرت کبھی بھی قوالی سننے والے کو ہرگز خلافت عطا نہیں فرماتے ۔ اگر یہ قوالی سننے والے علماء و مشائخ فاسق ہوتے تو اعلیٰ حضرت کبھی بھی ان کی تعظیم و تکریم نہ کرتے ۔
(۳) ایسی محفل سماع یا قوالی جس میں فسق ولہونہ اس میں شریک ہونا مباح ہے۔نیز اسی طرح ایسی محفل سماع جو لہوولعب سے بری نہ ہوجیساکہ فی زمانہ عام ہے۔سننے والےاور سنانےوالوں میں اکثریت فساق کی ہے۔چونکہ عدم جوازکی وجہ لہوولعب ہے،توایسی صورت میں ایک باشرع آدمی کا ایسی محفل سماع میں شریک ہونا ہرگزہرگزجائزنہیں۔
- واللہ اعلم باالصواب