تاریخ:2025-03-14

تاریخ:2025-03-14

سرورق + روزہ + فضائل و مسائل رمضان المبارک

فضائل و مسائل رمضان المبارک

عنوان : فضائل و مسائل رمضان المبارک

اﷲعزوجل فرماتاہے:

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ہ اَ َیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَط  وَ عَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ ط فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَہُوَ خَیْرٌ لَّہ ط  وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوَْ نَ ہ َشَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَ الْفُرْقَانَِ ط فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ ط وَ مَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَط یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَط وَ لِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰیکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ہ َوَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُوْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْنَ ہ اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآئِکُمْ ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ  وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَ عَفَا عَنْکُمْ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْہُنَّ وَ ابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ وَکُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِط ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ وَ لَا تُبَاشِرُوْہُنَّ وَ اَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلَا تَقْرَبُوْہَا کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَّقُوْنَ ہ

]پارہ ۲سورۃالبقرۃ۱۸۳،۱۸۷[

ترجمہ  :  اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا جیسا ان پر فرض ہوا تھا جو تم سے پہلے ہوئے، تاکہ تم گناہوں  سے بچو چند دنوں  کا۔ پھر تم میں  جو کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو، وہ اور دنوں میں  گنتی پوری کرلے اور جو طاقت نہیں  رکھتے، وہ فدیہ دیں  ۔ ایک مسکین کا کھانا پھر جو زیادہ بھلائی کرے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے اور روزہ رکھنا تمھارے لیے بہتر ہے، اگرتم جانتے ہو۔ ماہِ رمضان جس میں   قرآن اُتارا گیا۔ لوگوں  کی ہدایت کو اور ہدایت اور حق و باطل میں  جدائی بیان کرنے کے لیے تو تم میں  جو کوئی یہ مہینہ پائے تو اس کا روزہ رکھے اور جو بیمار یا سفرمیں ہو وہ دوسرے دنوں  میں  گنتی پوری کر لے۔ اﷲ(عزوجل)تمھارے ساتھ آسانی کا ارادہ کرتا ہے، سختی کا ارادہ نہیں فرماتا اور تمھیں   چاہیے کہ گنتی پوری کرو اور اﷲ(عزوجل)کی بڑائی بولو، کہ اُس نے تمھیں  ہدایت کی اور اس امید پر کہ اس کے شکر گزار ہو جاؤ۔ اور اے محبوب (صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم) ! جب میرے بندے تم سے میرے بارے میں  سوال کریں  تو میں  نزدیک ہوں  ، دُعا کرنے والے کی دُعا سنتا ہوں  جب وہ مجھے پکارے تو اُنھیں  چاہیے کہ میری بات قبول کریں  ،اور مجھ پر ایمان لائیں  ، اِس اُمید پر کہ راہ پائیں  ۔ تمھارے لیے روزہ کی رات میں عورتوں  سے جماع حلال کیا گیا، وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس۔ اﷲ(عزوجل)کو معلوم ہے کہ تم اپنی جانوں پرخیانت کرتے ہو تو تمھاری توبہ قبول کی اور تم سے معاف فرمایا تو اَب اُن سے جِماع کرو اور اسے چاہو جو اﷲ (عزوجل)نے تمھارے لیے لکھا اور کھاؤ اور پیو اس وقت تک کہ فجر کا سُپید ڈورا سیاہ ڈورے سے ممتاز ہو جائے پھر رات تک روزہ پورا کرو اور ان سے جِماع نہ کرو اس حال میں  کہ تم مسجدوں  میں  معتکف ہو۔ یہ اﷲ(عزوجل)کی حدیں ہیں  ، اُن کے قریب نہ جاؤ، اﷲ(عزوجل) اپنی نشانیاں  یوہیں  بیان فرماتا ہے کہ کہیں  وہ بچیں  ۔

  روزہ بہت عمدہ عبادت ہے، اس کی فضیلت میں  بہت حدیثیں  آئیں  ۔ ان میں   سے بعض ذکر کی جاتی ہیں  ۔

حدیث :       امام احمد و ترمذی و ابن ماجہ کی روایت میں  ہے، جب ماہِ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش  جِنّ قید کر لیے جاتے ہیں  اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں  تو اُن میں  سے کوئی دروازہ کھولا نہیں  جاتا اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں تو اُن میں  سے کوئی دروازہ بند نہیں  کیا جاتا اور منادی پکارتا ہے، اے خیر طلب کرنے والے! متوجہ ہو اور اے شر کے چاہنے والے! باز رہ اور کچھ لوگ جہنم سے آزاد ہوتے ہیں اور یہ ہر رات میں ہوتا ہے۔        ]جامع الترمذی ابواب الصوم  ،الحدیث ۶۸۲، جلد ۲،صفحہ۱۵۵[

امام احمد ونسائی کی روایت انھیں سے ہے، کہ حضورِ اقدس صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان آیا، یہ برکت کا مہینہ ہے، اﷲتعالیٰ نے اس کے روزے تم پر فرض کیے، اس میں  آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں  اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں  اور سرکش شیطانوں   کے طوق ڈال دیے جاتے ہیں ،اور اس میں  ایک رات   ایسی ہے جو ہزار مہینوں  سے بہتر ہے، جو اس کی بھلائی سے محروم رہا، وہ بیشک محروم ہے۔

]سنن النسائی کتاب الصیام باب ذکر الاختلاف  ،الحدیث ۲۱۰۳، صفحہ ۳۵۵[

حدیث :       ابن ماجہ انس رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے راوی، کہتے ہیں  ۔ رمضان آیا تو حضورﷺنے فرمایا: یہ مہینہ آیا، اس میں ایک رات ہزار مہینوں  سے بہتر ہے، جو اس سے محروم رہا، وہ ہر چیز سے محروم رہا اور اس کے خیر سے وہی محروم ہوگا، جو پورا محروم ہے۔

( سنن ابن  ماجہ باب ما جاء فی فضل شھر رمضان ،الحدیث ،۱۶۴۴،جلد ۲، صفحہ ۲۹۸)

حدیث  :        بیہقی شعب الایمان میں  سلمان فارسی رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے راوی، کہتے ہیں  رسول اﷲصلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے شعبان کے آخر دن میں  وعظ فرمایا۔  فرمایا: اے لوگو! تمھارے پاس عظمت والا، برکت والا مہینہ آیا، وہ مہینہ جس میں  ایک رات ہزار مہینوں  سے بہتر ہے، اس کے روزے اﷲتعالیٰ نے فرض کیے اور اس کی رات میں  قیام (نماز پڑھنا)تطوع (یعنی سنت)جو اِس میں  نیکی کا کوئی کام کرے تو ایسا ہے جیسے اور کسی مہینے میں  فرض ادا کیا اور اس میں  جس نے فرض ادا کیا تو ایسا ہے جیسے اور دنوں  میں  ستّر( ۷۰)  فرض ادا کیے۔ یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔ اور یہ مہینہ مواسات( یعنی غمخواری اور بھلائی )کا ہے اور اِس مہینے میں  مومن کا رزق بڑھایا جاتا ہے، جو اِس میں  روزہ دار کواِفطار کرائے، اُس کے گناہوں  کے لیے مغفرت ہے اور اس کی گردَن آگ سے آزاد کر دِی جائے گی اور اِس افطار کرانے والے کو ویسا ہی ثواب ملے گا جیسا روزہ رکھنے والے کو ملے گا،  بغیر اس کے کہ اُس کے اَجر میں  سے کچھ کم ہو۔ ہم نے عرض کی، یا رسول اﷲﷺنے فرمایا: اﷲتعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو دے گا، جو ایک گھونٹ دودھ یا ایک خُرما یا ایک گھونٹ پانی سے روزہ افطار کرائے اور جس نے روزہ دار کو بھر پیٹ کھانا کھلایا، اُس کو  اﷲتعالیٰ میرے حوض سے پلائے گا کہ کبھی پیاسا نہ ہوگا یہاں تک کہ جنت میں  داخل ہو جائے۔   یہ وہ مہینہ ہے کہ اُس کا اوّل رحمت ہے اور اُس کا اوسط مغفرت ہے اور اُس کا آخر جہنم سے آزادی ہے جو اپنے غلام پر اس مہینے میں  تخفیف کرے یعنی کام میں  کمی کرے، اﷲتعالیٰ اُسے بخش دے گا اور جہنم سے آزاد فرما دے گا۔

]شعب الایمان ، فضائل شھر رمضان ،الحد یث ۳۶۰۸، جلد ۳،ص، ۳۰۵[

حدیث  :      صحیحین میں  ابوہریرہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے مروی، رسول اﷲصلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں  : آدمی کے ہر نیک کام کا بدلہ دس ۱۰ سے سات سو( ۷۰۰) تک دیا جاتا ہے، اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: مگر روزہ کہ وہ میرے لیے ہے اور اُس کی جزا میں  دوں گا۔ بندہ اپنی خواہش اور کھانے کو میری وجہ سے ترک کرتاہے۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں  ہیں  ، ایک افطار کے وقت اور ایک اپنے رب (عزوجل)سے ملنے کے وقت اور روزہ دار کے مونھ کی بُو اﷲعزوجل کے نزدیک مُشک سے زیادہ پاکیزہ ہے ،اور روزہ سپر ہے اور جب کسی کے روزہ کا دن ہو تو نہ بے ہودہ بکے اور نہ چیخے پھر اگر اِس سے کوئی گالی گلوچ کرے یا لڑنے پر آمادہ ہو تو کہہ دے، میں  روزہ دار ہوں ۔]مشکاۃالمصابیح کتاب الصوم الفصل الاو ل، ا لحدیث ۱۹۵۹،جلد اول، صفحہ ۵۴۱[

اسی کے مثل امام مالک و ابو داؤد و ترمذی و نسائی اور ابن خزیمہ نے روایت کی۔

حدیث :   بیہقی عبداﷲبن عمرو بن العاص رضی اﷲتعالیٰ عنہما سے راوی، کہ رسول اﷲصلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں  : روزہ دار کی دُعا، افطار کے وقت َردنہیں  کی جاتی۔ 

]شعب الایمان باب فی الصیام فصل فیما یفطر الصائم، الحدیث ۳۹۰۴،جلد ۳، صفحہ،۴۰۷[

حدیث :         امام احمد و ترمذی و ابن ماجہ و ابن خزیمہ و ابن حبان ابوہریرہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں  ، رسول اﷲصلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم فرماتے: تین شخص کی دُعا رَدنہیں  کی جاتی۔ روزہ دار جس وقت افطار کرتا ہے اور بادشاہ عادل اور مظلوم کی د ُعا، اِس کو اﷲتعالیٰ ابرسے اوپر بلند کرتا ہے اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں  ۔ اور َرب عزوجل فرماتا ہے: مجھے اپنی عزّت و جلال کی قسم! ضرور تیری مدد کروں  گا، اگرچہ تھوڑے زمانہ بعد۔

]سنن ابن ماجہ ابواب ما جاء فی الصیام ،، الحدیث ۱۷۵۲،جلد ۲، صفحہ ۳۴۹[

حدیث :         صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ سے مروی، رسول اﷲصلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں  : جس روزہ دارنے بھول کر کھایا یا پیا، وہ اپنے روزہ کو پورا کرے کہ اُسے اﷲ (عزوجل)نے کھلایا اور پلایا۔    ]صحیح مسلم کتاب الصیام ، الحدیث ۱۱۵۵،صفحہ ۵۸۲[

رمضان شریف کی برکتیں

رمضان المبارک کی برکتیں  بے شمار ہیں  جن سے اللہ تعالیٰ کے نیک بندے مستفید ہو کر سعادت دارین حاصل کرتے ہیں  ۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں

{۱}      جب رمضان آتا ہے تو آسمان و جنت اور رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔

{۲}    دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں  اور شیاطین زنجیروں  میں  جکڑ دیے جاتے ہیں  ۔

{۳}    اگر بندوں  کو معلوم ہوتا کہ رمضان کیا چیز ہے تو میری امت تمنا کرتی کہ پورے سال رمضان ہی ہو۔

روزے کی خوبیاں

 نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں

{۱}      ہر چیز کی زکوٰۃ ہے اور بدن کی زکوٰۃ روز ہ ہے ۔

{۲}      روزہ سپر ہے اور دوزخ سے حفاظت کا مضبوط قلعہ ہے۔

{۳}      روزہ دار کے منہ کی بو خدائے قدوس کے نزدیک مشک سے بہتر ہے۔

{۴}    روزہ دار کی نیند عبادت ہے ، اس کا دم لینا تسبیح ہے ، اس کی دعا مستجاب ہے۔

{۵}      اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں  خود اس کی جزا دوں  گا۔

روزہ کے درجات

 روزہ کے تین درجے ہیں    :

{۱}        عوام کا  

{۲}      خواص کا 

{۳}      اخص الخواص کا۔

عوام کا روزہ  :      کھانے پینے صحبت کرنے سے باز رہنا  (یہ ادنیٰ درجہ کا روزہ ہے)

خواص کا روزہ :    ان تینوں  امور سے باز رہنے کے علاوہ آنکھ ، کان ، زبان ، ہاتھ ، پاؤں  وغیرہ تمام اعضاء کو گناہوں  سے بچانا ہے ۔ جو روزہ دار اپنے اعضاء کو گناہوں  سے نہیں  بچاتے ان کی مثال اس مریض کی سی ہے جو زہر کھائے اور میوؤں  سے پرہیز کرے اسی لیے نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے فرمایا: بہت سے روزہ دار ایسے ہیں  کہ بھوک اور پیاس کے سوا روزہ میں  ان کا کوئی حصہ نہیں ۔

اخص الخواص کا روزہ:     ماسوا اللہ سے دل کو فارغ کرنا ہے، اغراض دنیا کی طرف توجہ کرنا حتیٰ کہ افطار کی چیزوں  کے لیے تدبیر کرنا بھی اس روزہ کو توڑ دیتا ہے۔ یہ اعلیٰ درجہ کا روزہ ہے اور حضرات انبیائے کرام و صدیقین علیہم السلام کا حصہ ہے۔ ذَالِکَ فضل اللّٰہ یوتیہ مَن یّشآء۔

روزے کی  نِیّت 

دل کے ارادہ کا نام ہے مگر زبان سے ان الفاظ کا کہہ لینا مستحب ہے ۔

نیّت کرے تو یوں  کہے:

”نَوَیْتُ اَنْ اَصُوْمَ غَدًا لِلّٰہِ تَعَالٰی مِنْ فَرْضِ رَمَضَانَ ھٰذَا.”

میں  نے نیت کی کہ کل اس رمضان کا فرض روزہ اﷲ تعالیٰ کیلیے رکھوں  گا۔

وہ لوگ جن کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے

ایسا مریض جس کو جان تلف ہونے یا کسی عضو کے جاتے رہنے کا یا مرض بڑھنے کا یا دیر پا ہونے کا غالب گمان ہو۔ حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت جس کو اپنی جان کا یا بچہ کا صحیح اندیشہ ہو ۔ مسافر جب کہ اسے غیر معمولی تھکان یا مشقت بڑھ جائے ورنہ روزہ رکھنا افضل ہے ۔ پیشہ ور اور مزدور جن کو اپنے اہل و عیال کے خرچ کے لیے محنت مزدوری کرنی پڑے، معذور نہیں  کہ ان پر روزہ رکھنا فرض ہے ۔شیخ فانی ایسا بوڑھا مرد(یا عورت) جو بوڑھاپے اور کمزوری کی وجہ سے نہ اس وقت روزہ رکھ سکتے ہوں  اور نہ آئندہ اتنی طاقت آنے کی امید ہے ۔ ان کو ہر روزہ کے بدلے فدیہ یعنی دونوں  وقت ایک مسکین کو پیٹ بھر کھانا کھلانا واجب ہے ۔ عورت کا حیض و نفاس سے پاک ہونا ادائے روزہ کے لیے شرط ہے ۔ جب یہ عذر جاتے رہیں  تو روزہ کی قضا کی جائے۔

وہ باتیں  جو روزہ میں  مکروہ ہیں

کلی کرنے اور ناک میں  پانی ڈالنے میں  مبالغہ کرنا ۔ زیادہ دیر تک منہ میں  پانی بھرا رکھنا ، بلاعذر کسی چیز کا چکھنا۔ اگر عورت کا شوہر بد مزاج ہو تو سالن اس طرح چکھ سکتی ہے کہ حلق میں  کچھ نہ جانے پائے یا بچہ کے کھانے کے لیے کوئی چیز نہ ہو ، اور نہ گھر میں  کوئی ایسا بے روزہ دار ہو جو چبا کر کھلا دے تو وہ روٹی چبا کر دے سکتی ہے ۔ مسواک کرنا ، سرمہ لگانا، بالوں  میں  تیل ڈالنا مکروہ نہیں ۔

وہ باتیں  جن سے روزہ نہیں  ٹوٹتا

بھول کر کھانا پینا، صحبت کرنا ، دانت میں  اٹکی ہوئی چیز کا نگل جانا بشرط یہ کہ چنے سے کم ہو ورنہ روزہ جاتا رہے گا ۔ کلی کے بعد منہ میں  جو تری رہ جاتی ہے اس کا نگل جانا۔آنکھ میں  دوا ٹپکانا ، حلق میں  مکھی یا دھواں  یا غبار یا آٹے کا چلا جانا  ۔ خود بخود قے کا ہو جانا ، اگرچہ منہ بھر کر ہو ۔ ہاں  اگر اس میں  سے کچھ لوٹا لی یا قصداً منہ بھر کر کی تو روزہ جاتا رہے گا۔ صبح کو جنابت کی حالت میں  اٹھا یا دن میں  احتلام ہوگیا، غسل کرے کوئی حرج نہیں  ۔

 تنبیہ: کسی روزہ دار کو بھول کر کھاتے پیتے دیکھے تو یاد دلا دے ورنہ گنہگار ہوگا ۔ ہاں  اگر وہ اتنا کمزور ہو کہ روزہ پورا کرنا دشوار ہو تو یاد نہ دلانا بہتر ہے۔

وہ امور جن سے صرف قضا واجب ہوتی ہے

صبح صادق ہونے کے خیال سے سحری کھا لینا حالانکہ صبح صادق ہو چکی تھی یا آفتاب غروب ہو جانے کے گمان سے روزہ افطار کرلینا در اں  حال یہ کہ آفتاب غروب نہ ہوا تھا۔ بھول کر کھانے پینے کے بعد یہ سمجھ کر کہ اب روزہ جاتا ہی رہا قصداً کھا پی لینا ۔ دانتوں سے نکلے ہوئے خون کو نگل جانا، کلی کرتے وقت بلا قصد حلق میں  پانی چلا جانا ، کان میں  تیل ٹپکانا، ناک میں  دوا سڑکنا، پیٹ میں  پچکاری سے دوا پہنچانا، حقہ سگریٹ ،بیڑی پینا (اگر ان چیزوں  کے پینے کے عادی ہے تو کفارہ بھی لازم ہے) کنکر، پتھر ، مٹی ، کاغذ وغیرہ ایسی چیز کھالینا جس سے لوگ گھن کرتے ہیں  ۔ ان صورتوں  میں  روزہ جاتا رہے گا اور صرف قضا واجب ہوگی۔

وہ صورتیں  جن سے قضا اور کفارہ دونوں  لازم آتے ہیں

جان بوجھ کر کھانے پینے جماع کرنے سے قضا و کفارہ دونوں  لازم آتے ہیں  ۔ قضا میں  ایک روزہ کے بدلے ایک روزہ رکھنا واجب ہے اور کفارہ میں  ایک کے بدلے ساٹھ روزے پے در پے رکھنا ضروری ہیں ۔ اگر اس کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں  کو دونوں  وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلائے۔

وہ باتیں  جن سے روزہ ٹوٹتا ہے

مسئلہ :  مکّھی یا دُھواں  یا غبارحلق میں  جانے سے روزہ نہیں  ٹوٹتا۔  خواہ وہ غبار آٹے کا ہو کہ چکّی پیسنے یا چھاننے میں  اڑتا ہے ،یا غلّہ کا غبار ہو یا ہوا سے خاک اُڑی یاجانوروں  کے کُھر یا ٹاپ سے غبار اُڑ کر حلق میں  پہنچا، اگرچہ روزہ دار ہونا یاد تھا اور اگر خود قصداً دھواں  پہنچایا تو فاسد ہوگیا جبکہ روزہ دار ہونا یاد ہو ۔ خواہ وہ کسی چیز کا دھواں ہو اور کسی طرح پہنچایا ہو، یہاں  تک کہ اگر بتی وغیرہ کی خوشبو سُلگتی تھی، اُس نے مونھ قریب کر کے دھوئیں  کو ناک سے کھینچا روزہ جاتا رہا۔ یوہیں  حُقّہ پینے سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اگر روزہ یاد ہو اورحُقّہ پینے والا اگر پیے گا تو کفارہ بھی لازم آئے گا۔                                     ]ردالمحتار، جلد ۳، صفحہ ۴۲۰[

سحری کی اہمیت

حدیث :       سید الانبیاء علیہ التحیۃ والثناء فرماتے ہیں  کہ سحری میں  برکت ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں  دی ہے تو اسے نہ چھوڑنا۔

 سحری میں  تاخیر مستحب ہے مگر اتنی نہیں  کہ وقت ہی میں  شک ہونے لگے ۔

تنبیہ: جو لوگ صبح صادق نہیں  پہچانتے وہ گرمیوں  میں  خاص کر ماہ جون و جولائی میں  سورج نکلنے سے ایک گھنٹہ ۴۰ منٹ پہلے اور جاڑوں  میں  خصوصاً دسمبر اور جنوری میں  ڈیڑھ گھنٹہ قبل سحری کریں ۔

روزے کے متفرق مسائل

مسئلہ:        عورت کو جب حیض نفاس آگیاتو روزہ جاتا رہا، اور حیض سے پورے دس ددن رات میں  پاک ہوئی تو بَہر حال کل کا روزہ رکھے۔  اور کم میں  پاک ہوئی تو اگر صبح ہونے کو اتنا عرصہ ہے کہ نہا کر خفیف سا وقت بچے گا تو بھی روزہ رکھے اور اگر نہا کر فارغ ہونے کے وقت صبح چمکی تو روزہ نہیں ۔   ]فتاویٰ ہندیہ کتاب الصوم ، البا ب الخامس ،جلد اول، صفحہ ۲۰۷[

مسئلہ:        حیض و نفاس والی کیلیے اختیار ہے کہ چُھپ کر کھائے یا ظاہراً روزہ کی طرح رہنا اُس پر ضروری نہیں  ، مگر چھپ کر کھانا اولیٰ ہے۔خصوصاً حیض والی کیلیے ۔

]الجوہرۃ نیّرہ ، کتاب الصوم، صفحہ ۸۶[

مسئلہ:        اگر فدیہ دینے کے بعد اتنی طاقت آگئی کہ روزہ رکھ سکے تو فدیہ صدقہ نافلہ ہوکر رہ گیا۔  اُن روزوں  کی قضاء رکھے۔

]فتاویٰ ہندیہ کتاب الصوم ، البا ب الخامس ،جلد اول، صفحہ ۲۰۷[

مسئلہ:        حمل والی اور دودھ پلانے والی کو اگر اپنی جان یا بچہ کی جان جانے کا صحیح اندیشہ ہے تو اجازت ہے کہ اُس وقت روزہ نہ رکھے خوا ہ دودھ پلانے والی بچہ کی ماں  ہو یا دائی، اگر چہ رمضان میں  دودھ پلانے کی نوکری ہو۔    ] رد المحتار، کتاب الصوم ، جلد ۳ ، صفحہ ۴۶۳[

افطار کی فضیلت 

  سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :

{۱}    جو روز ہ دار کا روزہ افطار کرائے تو اسے بھی اتنا ہی ثواب ملے گا۔

{۲}      جب تم میں  سے کوئی روزہ افطار کرے تو کھجور یا چھوارہ سے کرے کہ وہ برکت ہے اور اگر نہ ملے تو پانی سے کہ وہ پاک کرنے والا ہے۔

{۳}      ہمیشہ لوگ خیر کے ساتھ رہیں  گے جب تک کہ افطار میں  جلدی کریں  گے(مگر اتنی نہیں  کہ سورج ڈوبنے ہی میں  شک ہو) 

افطار کے وقت یہ دعا پڑھنا سنت ہے :

اَللَّہُمَّ اِنِّی لَکَ صُمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَیْکَ تَوَکَلَّتُ وَعَلَی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُُ. فاغفرلی ما قَدَّمتُ وما أخَّرْتُ۔

(ترجمہ)       اے اللہ! میں  نے تیرے لیے روزہ رکھا ، تجھی پر ایمان لایا تجھی پر بھروسہ کیا ، تیرے ہی رزق پر افطار کیا تو میرے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دے ۔

 تنبیہ  :  اگر مسجد میں  روزہ افطار کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو اعتکاف کی نیت کرلی جائے اور کچھ ذکر الٰہی کے بعد افطار کیا جائے کیوں  کہ مسجد میں  کھانا پینا سونا معتکف اور مسافر کے سوا کسی کو جائز نہیں  اور بعض ائمہ نے تو صرف معتکف کے لیے جائز بتلایا ہے۔ لہٰذا مسافر بھی اعتکاف کی نیت کرلے تا کہ خلاف سے بچے۔

نیت :  بِسْمِ اللّٰہِ دَخَلْتُ وَعَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَنَوَیْتُ سُنَّۃَ الْاِعْتِکاَفِ۔

(ترجمہ)     میں  اللہ کے نام سے داخل ہوا ، اور اسی پر بھروسہ کیا اور اعتکاف سنت کی نیت کی۔

نماز تراویح:

تراویح کی بیس رکعتیں  مردوعورت سب کے لیے سنت مؤکدہ ہے۔  اس پر خلفائے راشدین نے مداومت فرمائی ہے اور صحابۂ کرام کا اجماع ہو چکا ہے ۔ تراویح میں  ایک مرتبہ قرآن کریم کا ختم سنت مؤکدہ ہے اور اس سے زیادہ مستحب ہے ۔ قرآن پاک کی تلاوت میں  ترتیل نہایت ضروری ہے ۔ افسو کہ آج کل اکثر حفاظ حروف کو صحیح طور پر ادا نہیں  کرتے بلکہ الفاظ تک کھا جاتے ہیں  جس سے قطعاً نماز ہی نہیں  ہوتی۔ چار رکعت تراویح پڑھ کر اتنی دیر بیٹھنا مستحب ہے کہ جتنی دیر میں  چار رکعتیں  پڑھیں  ، اس بیٹھنے میں  اختیار ہے کہ تلاوت کرے یا کلمہ درود شریف پڑھے یایہ تسبیح پڑھے:

سُبْحَانَ ذِی الْمُلْکِ وَالْمَلَکُوْتِ ط سُبْحَانَ ذِی الْعِزَّۃِ وَالْعَظَمَۃِ وَالْہَیْبَۃِ وَالْقُدْرَۃِ وَالْکِبْرِیَآئِ وَالْجَبَرُوْتِ ط سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْحَیِ الَّذِی لَا یَنَامُ وَلَا یَمُوْتُ سُبُّوحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّنَا وَرَبُّ الْمَلَائِکَۃِ وَالرُّوْحِ ط اَللّٰہُمَّ اَجِرْنَا مِنَ النارِ یَا مُجِیْرُ یَا مُجِیْرُ یَا مُجِیْر۔

ترجمہ :         پاک ہے ملک او ربادشاہت والا، پاک ہے عزت ، بزرگی او ربڑائی ،قدرت او رطاقت والا، پاک ہے بادشاہ جو زندہ ہے نہ سوتا ہے نہ مرتا ہے، پاک ہے مقدس ہے ہمارا اور فرشتوں  اور روح کا مالک ۔اللہ کے سو ا کوئی معبود نہیں  ۔ ہم اللہ سے مغفرت چاہتے ہیں  ۔ اے اللہ! ہم تجھ سے جنت کا سوال کرتے ہیں  اور دوزخ سے تیری پناہ مانگتے ہیں ۔  اے پناہ دینے والے! اے پناہ دینے والے!  اے پناہ دینے والے!

جس نے عشاء کی فرض جماعت سے نہ پڑھی ہو وہ تراو یح کی جماعت میں  شریک ہوسکتا ہے البتہ وتر تنہا پڑھے۔

 تنبیہ:   رمضان شریف میں  بہت سی جگہ عشاء کی اذان وقت سے پہلے دے دی جاتی ہے جس سے جماعت بھی مکروہ ہوتی ہے کیوں  کہ وقت سے پہلے اذان کا ہونا نہ ہونا دونوں  برابر ہیں  لہٰذا گرمیوں  میں  بعد غروب آفتاب ایک گھنٹہ ۴۰ منٹ اور جاڑوں  میں  ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد اذان کہی جائے۔

نابالغ کی امامت

 صحیح یہ ہے کہ نابالغ کے پیچھے بالغ کی کوئی نماز جائز نہیں  خواہ فرض ہو یا تراویح یا اور کوئی نفل۔

اعتکاف کا بیان

حضرت علی (زین العابدین) بن حسین اپنے والد امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

مَنِ اعْتَکَفَ عَشْرًا فِی رَمَضَانَ کَانَ کَحَجَّتَيْنِ وَ عُمْرَتَيْنِ.

 (بيهقی، شعب الإيمان، باب الاعتکاف، 3 :  425، رقم :  3966)

’’جس شخص نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کیا، اس کا ثواب دو حج اور دو عمرہ کے برابر ہے۔‘‘

 اعتکاف سنت کفایہ ہے یعنی شہر میں  اگر کوئی ایک شخص بھی کرے گا تو سب بری الذمہ ہو جائیں  گے اور اگر کسی نے بھی نہ کیا تو سب سے مطالبہ ہوگا۔ معتکف کو چاہیے کہ بیسویں  رمضان کو سورج ڈوبنے سے پہلے اعتکاف کی نیت سے مسجد میں  پہنچ جائے اور چاند ہونے کے بعد نکلے۔

 بلا عذر اگر مسجد سے نکلے گا تو اعتکاف باطل ہو جائے گا ۔

عورت گھر میں  اسی جگہ اعتکاف کرے جو نماز کے لیے مقرر کر رکھی ہو یا اب اعتکاف سے پہلے مقرر کرلے۔

شبِ قدر

 احادیث مبارکہ میں  اس شب کی بڑی فضیلتیں  وارد ہوئی ہیں  غروب آفتاب سے لے کر صبح صادق تک انور الٰہی کی بارش ہوتی ہے ۔ آدمی کو چاہیے کہ اس شب میں  کثرت سے استغفار کرے اور رات عبادت میں  گزارے ۔ محبوب خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پہلی امتوں  میں  سے ایک شخص کا ذکر فرمایا جس نے ہزار مہینے اس طرح گزارے تھے کہ تمام رات عبادت اور تمام دن جہاد میں  مشغول رہتا تھا ۔ صحابۂ کرام کو تعجب ہوا حق تعالیٰ نے آپ کو اور آپ کے صدقہ میں  آپ کی امت کو یہ مبارک شب عطا فرمائی اور یہ سورت نازل کی۔

’’سورۃ القدر‘‘

إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِی لَیْلَۃِ الْقَدْرِo وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ o لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَہْرٍ o تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوحُ فِیہَا بِإِذْنِ رَبِّہِم مِّن کُلِّ أَمْرٍ o سَلَامٌ ہِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِo

ترجمہ:  بے شک ہم نے اس قرآن مجید کو اتارا شب قدر میں  او رتم نے کیا جانا شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں  سے بہتر ہے، اس میں  فرشتے اور جبرئیل اترتے ہیں  اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے ، وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک۔ جو لوگ اس شب کے اندر عبادت الٰہی میں  مشغول ہوتے ہیں  فرشتے انھیں  سلام کرتے ہیں  ، ان سے مصافحہ کرتے ہیں  ، ان کے حق میں  دعا و استغفار کرتے ہیں  ۔ احادیث شریفہ میں  ہے

{۱}  شب قدر میں  ایک آیت پڑھنا دوسرے دنوں  میں  پورا قرآن پاک پڑھنے سے بہتر ہے

{۲}  ایک روایت میں  ہے کہ جس نے شب قدر میں  تین مرتبہ لَا إِلَٰہَ إِلَّا اللَّٰہُ  کہہ لیا تو حق تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے گا ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضور سے دریافت کیا کہ اگر میں  شب قدر پاؤں  تو کیا کروں ؟ فرمایا یہ دعا مانگنا:

اَللّٰہم إِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ  ۔

ترجمہ:       اے اللہ ! بے شک تو معاف کرنے والا اور عفو کو پسند فرمانے والا ہے مجھ سے درگزر فرما۔ بعض روایات میں  نوافل پڑھنے کی یہ ترکیب آئی ہے کہ(۷۰) ستّر یا (۱۰۰)سو رکعتیں  اس طرح ادا کریں  کہ ہر رکعت میں  سورۂ فاتحہ کے بعد اِنّا اَنزَلْناَہُ ایک بار پڑھیں  پھر نماز سے فارغ ہو کر ستّر مرتبہ استغفار کریں  اور دعا مانگیں  (ان شاء اللہ تعالیٰ مستجاب ہوگی)

صدقۂ فطر

 سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں  کہ بندہ کا روزہ آسمان و زمین کے درمیان معلق رہتا ہے جب تک صدقۂ فطر نہ دیا جائے ۔ صدقۂ فطر ہر صاحب نصاب مسلمان پر اپنی اور اپنی چھوٹی اولاد کی طرف سے واجب ہے ہاں  اگر چھوٹی اولاد مالک نصاب ہو تو اس کے مال سے ادا کیا جائے۔ مالک نصاب وہ شخص ہے جس کے پاس (7½)ساڑھے سات تولہ سونا یا (52½)ساڑھے باون تولہ چاندی یا کچھ سونا اور کچھ چاندی ہو کہ دونوں  سے مل کر کوئی ایک نصاب پورا ہو جائے۔ صدقہ فطر فی کس ۲ دو کلو ۴۵ گرام گیہوں  یا اس کی قیمت ہے بلکہ قیمت کا دینا افضل ہے ۔ صدقہ فطر عیدگاہ جانے سے پہلے ادا کرنا سنت ہے ۔ اگر پہلے نہ دے سکے تو بعد میں  دے دے۔ صدقۂ فطر ان ہی لوگوں  کو دیا جائے جن کو زکوٰۃ دینا جائز ہے۔

۞۞۞۞۞۞

مسائل شریعت ۔از: فقیہ اعظم ھند
اوپر تک سکرول کریں۔