تاریخ:2025-03-14

تاریخ:2025-03-14

سرورق + مسجد کے آداب و احکام + شرعاً مسجد کب ہوتی ہے؟

شرعاً مسجد کب ہوتی ہے؟

ضلع رتناگیری میں پورن گڑھ نام کا ایک چھوٹاساگاؤں ہے یہاں زمانہ قدیم کا ایک رقبہ ہے ۔ مسلمان اس میں نماز پڑھتے ہیں۔ مسجد کی نوعیت یہ ہے کہ چودھ گنٹھ زمین کا ایک رقبہ ہے ۔ اسی زمین کے ایک کنارے پر تقریباً ڈیڑھ دو گنا زمین کی حدوداربعہ میں مسجد کی عمارت اور اس کا صحن ہے ۔مسجد کافی وسیع اور کشادہ اورایک منزلہ ہے۔ صحن بھی کافی زیادہ بڑاہے۔پورے گاؤں کے لوگ جو اس زمین کے مالک تھے،دو گنٹھ زمین کے حدود اربعہ میں مسجدکی تعمیرکی تھی اور اس کے علاوہ زمین میں اپنے رہائشی مکانات بنوائے ۔ بقیہ اسی میں انکے وارثان آج بھی رہتے ہیں ۔یہ مسجد قدیم بوسیدہ اورشکستہ ہوگئی توگاؤں کے مسلمانوں نے ایک میٹینگ کی کہ اب مسجد کی تعمیر ازسر نوآغاز کرنا ہے ۔ کچھ لوگوں نے اس امرکا مطالبہ کیا کہ چودھ گنٹھہ زمین کا جورقبہ ہے یہ مسجد کے واسطے وقف کردو اور اپنے مکانات چھوڑ دو۔ اس پر مکانات کے وارثوں نے کہا مسجد کو مزید زمین کی ضرورت ہے نہیں۔ اور ہم اپنے وطن چھوڑ کر کہاں جائیں گے۔ مطالبہ کرنے والوں نے اختلاف کیا اور چندے کی پوری رقم لے کر الگ ہوگئے اور اپنا ایک گروہ انجمن اتحاد المسلمین کے نام سے بنایا  اور ایک دوسری مسجد جدید کی بنیاد ڈالی اور یہاں کے مسلمان دو گروہ میں بٹ گئے ایک جماعت المسلمین کے نام سے اورایک اتحاد المسلمین ۔جماعت المسلمین نے صلح وصفائی اور اتحادکی بہت کوشش کی مگر انجمن اتحاد المسلمین کے لوگوں نے کوئی سماعت نہیں کی۔ اور ابھی مسجد جدید ادھوری و نامکمل ہے۔ اذان اورنماز شروع کردی۔ جمعہ عیدین کی نماز پڑھنے لگے ان کا ارادہ مسجد قدیم کوویران کرنامعلوم ہوتاہے ۔ چندہ کی رقم بھی واپس نہیں کرتے اورنہ کسی بات کی سماعت کرتے ہیں ۔ مند ر جہ ذیل میں ہم شرعی حکم معلوم کرنا چاہتے ہیں کیا حکم ہے ۔

  • مسجد جدید کی تعمیر جائز طریقے پر ہے یامنافقانہ فعل ہے؟
  • مسجد قدیم میں جمعہ کی نماز ہو رہی ہے ۔کیا مسجد جدید میں جمعہ کی نماز ہوسکتی ہے؟
  • مسجد قدیم کے چندہ کی رقم مسجد جدید میں صرف کی جاسکتی ہے؟
  • مسجد قدیم کی اگر تعمیر و حفاظت نہیں کی گئی توویران ہوجائیگی، توکیااسکا بدل مسجدجدید ہوسکتی ہے ؟ او رکیاانجمن اتحاد المسلمین عذاب الہی کے مستحق نہ ہوں گے؟

یہ بات قابل غور ہے کہ مسجد قدیم کے حامی وخادم مسلمان غریب او رمزدور طبقہ کے لوگ ہیں اور مسجد جدید کے بانیوں کو دولت و شہرت پر غرورہے اس لئے باتوں کی سماعت اورپرواہ نہیں کرتے۔ بلکہ لادینی قانونی پریشانیاں بھی پیداکرتے رہتے ہیں اورچندہ کی رقم مسجد قدیم کونہیں دیتے ۔

 

  • مسجد جدید شرعاً مسجد ہوئی یانہیں اور اسمیں نماز پڑھنے کی اجازت ہے یانہیں اوریہ لوگ جماعت میں پھوٹ ڈالنے والے قرارپائینگے یا نہیں۔ انکا فعل منافقانہ یامومنانہ ان امور کا دارومدار نیت پرہے ۔ اگر ان لوگوں نے یہ مسجد خالصاً لو جہ اللہ ہی تعمیر کی اگرچہ رنجش کے سبب تعمیر ہوئی تو اس کے مسجد ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ البتہ مسجد جدید کے ساتھ ساتھ مسجد قدیم کو بھی آباد رکھنا ضروری ہے ۔ فقہا ئے کرام فرماتے ہیں کہ اہل محلہ کو اختیارہے کہ بوقت ضرورت ایک مسجدکو دویادو مسجدوں کوایک کردیں۔ 

 اہل محلہ کو اختیارہے کہ ایک مسجد کو دو کردیں اور مسجد یں اللہ کے لئے ہی بنائی جاتی ہیں ۔لیکن اگر پُرانی مسجد کوویران کرنے اورجماعت میں تفرق ڈالنے کی غرض سے بنائی گئی تو البتہ وہ مسجدضرار کے حکم میں ہوگی۔ اورانکے فعل کو منافقانہ فعل سے تعبیر کرنا صحیح ہوگا۔ ایسی صورت میں اس مسجد جدید میں نماز پڑھنا ممنوع ہے لیکن ایک مسلمان کے متعلق ایسی بدگمانی نصو ص قطعیہ کے خلاف ہے۔ارشادربانی ہے۔

 اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو۔

حدیث میں ہے ظنوالمئونین خیر ا، مسلمانوں کے بارے میں اچھا گمان رکھو۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں ان مسلمانوں کے بارے میں نیک گمان کرتے ہو ئے اُس مسجد کو مسجد اوراس میں نماز جائز و ثواب اور اس کی آبادی کو ضروری نہ کہیں گے ۔البتہ مسجدقدیم کوآباد رکھنا بھی ضروری ہے۔

  • دیہات میں جمعہ اور عیدین حنفی مذہب میں جائزنہیں مگر جہاں ہمیشہ سے ہوتے چلا آرہا ہے اُسے منع نہ کیاجائے کہ آخر بادشاہ ا سلام یا اس کے نائب کی اجازت ضروری ہے۔ اورجہاں یہ نہ ہوں جیسے ہمارے شہروں میں توایسی جگہ وہاں کے سب سے بڑے سنّی صحیح العقیدہ عالم کہ تما م مسلمان جسے چاہیں مقرر کریں ۔’’کمافی الکتب العا مۃ ۔ لہذا ایک چھوٹی سی آبادی کے مسجد قدیم میں جمعہ ہوتے ہوئے بلا وجہ شرعی مسجد جدید میں جمعہ قائم کرنا صحیح نہیں۔
  • نہیں ہرگز نہیں ۔ جو چندہ مسجد قدیم کے نام پر جمع ہوئے وہ مسجد قدیم کی تعمیرمیں صرف ہونگے۔ ان رقموں کو مسجدجدید میں لگاناجائز نہیں ۔ فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ ایک مسجد کالوٹا دوسری مسجدمیں استعمال نہیں ہو سکتا۔ تو ایک مسجدکی رقم دوسری مسجد جدید میں کیونکرصرف ہوسکتی ہے۔
  • مسجدجدید کے ساتھ ساتھ مسجدقدیم کی آبادی ضروری ہے۔ مسجد کو ویران کرنا حرام اشد حرام موجب غضب جباراور مستحق عذاب نار ہوتاہے۔ارشاد ربانی ہے:

اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگاجو اللہ کی مسجدوں کو اس بات سے روکے کہ ان میں اللہ کا نام لیا جائے اور ان کو ویران کرنے کی کوشش کرے۔انہیں مسجدوں میں داخل ہونا مناسب نہ تھا مگر ڈرتے ہوئے۔ ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں بڑا عذاب ہے۔

خلاصہ یہ کہ جب مسلمانوں نے باہمی رنجش کے باعث خالص اللہ کیلئے مسجد جدید کی تعمیر کرلی اور پرا نی مسجد کوویران کرنے کی نیت نہیں تھی جومسجدجدیدکے ساتھ ساتھ مسجدقدیم کوآباد رکھنا فرض ہے اورمسجد قدیم کے چند ہ کو واپس کردینا ضروری ہے ۔

دارالافتاء : جامعہ عربیہ اسلامیہ نعل صاحب چوک، ناگپور
اوپر تک سکرول کریں۔