- سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ
- کہ جمعہ کے دن خطبے کی اذا ن کہاں دینی سنت ہے۔ مسجد کے اند ریا مسجد کے باہر۔یہاں امارت شرعیہ بہارکے مفتی نے جامع الرموز کے حوالے سے فتویٰ دیا ہے کہ ممبر کے قریب مسجد کے اندر خطبے کی اذان دی جائے ۔ امارت شرعیہ پر اہل سنت کو اعتماد کرنا چاہیے کہ نہیں۔
- اقامت کی تکبیر بیٹھ کر سننا چاہیے یا کھڑے ہو کراوراگربیٹھ کر سننا مستحب ہے توکب کھڑ ا ہوناچاہیے ۔ احادیث و فقہ کی روشنی میں دونوں مسئلوں کو واضح فرمائیں۔
- فقط و السلام محمد غیاث الدین
- جواب
- الجواب بعون الملک العلام الوھاب
- عموماً ممبر کے پاس ایک ہاتھ یا دو ہاتھ کے فاصلے پر خطیب کے سامنے جو اذان دی جاتی ہے وہ حدیث و فقہ دونوں کے خلاف ہے ۔ ابودائود شریف کی حدیث ہے سائب ابن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
- " السائب ابن یزید ان الاذان کان اولہ یجلس الامام علی المنبر یوم الجمعۃ فی عھدالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم و ابی بکرو عمر فلماکان خلا فتہ عثمان وکثرالناس امر عثمان یوم الجمعۃ بالا ذان الثالث فاذن بہ علی الزوراء فثبت الامر علی ذالک"
- (سنن ابی داؤد صفحہ ۱۵۵ کتاب الصلاۃباب النداء یوم الجمعۃ مطبوعہ کتب خا نہ نعیمیہ دیو بند)
یعنی پہلے اذان حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں اس وقت ہوتی تھی جب امام جمعہ کے دن ممبر پر بیٹھ جاتا اور جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا زمانہ آیا تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب لوگوں کی کثرت کو دیکھا تو آپنے ممبر میں جو اذان آج پہلی کہی جاتی ہے پڑھانے کا حکم دیا تو اذان زوراء باز ار ِمدینہ میں دی جاتی ۔ اسی پر عمل رہا ۔ ابودائودشریف کی حدیث ہے ۔
- "قال کان یوذن بین یدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اذا جلس علی ا لممبر یوم الجمعہ علیٰ باب المسجد ،وابی بکر وعمر "(المرجع السابق)
یعنی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے مسجد کے دروازے پر اذان جمعہ دی جاتی تھی ۔ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ و تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ان احادیث سے معلوم ہوا کہ خطبہ کی اذان سرکار دوعالم صلی اللہ و علیہ و سلم کے زمانے میں اور خلفائے کرام کے زمانے میں خارج مسجد ہوا کرتی تھی ۔ صاف واضح ہو گیاکہ اذان خارج مسجد ہونا چاہیے۔ مسلمانوں کے لئے سرکار دو عالم ﷺ کی سنت پرعمل کرنا کافی ہے۔
- اقامت بیٹھ کر سننا سنت ہے اور کھڑے ہوکرانتظار نماز کرنا مکرو ہے شر ح وقایہ میں ہے:
- " ویقوم الا مام و القوم عند حی علی الصلوۃ "
اسی کے حاشیے میں ہے کہ
- "اشارۃ الی انہ اذاد خل المسجدیکرہ لہ انتظارالصلاۃ قائما بل یجلس فی مو ضع ثم یقوم عند حی علی الفلاح "
- (شرح وقایہ جلد اول کتاب الصلاۃباب الاذان صفحہ۱۳۶مطبوعہ بموقع عرس نوری اشا عت ۳۷۸ ھجری ۱۴۲۶)
اقامت کے وقت کو ئی آئے تو کھڑے رہنا نماز کے انتظار میں مکرو ہے بلکہ اقامت بیٹھ کر سنے ۔ جب آنے کے لئے یہ حکم ہے تو بیٹھے ہوئے کوبد رجہء اولی ہے۔
- واللہ اعلم باالصواب