- سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ پر کہ خلفائے راشدین کی فضیلت کے باب میں بہت سے سنی علمائے دین اور صوفیائے کرام اور تمام سلسلۂ طریقت میں بزرگانِ دین سے بیعت بے شمار سنی مسلمان مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کی حسبی، نسبی، علمی، روحانی اور نورانی شخصیت ہونے کی بنا پر اور تمام بزرگان دین کے شجرۂ طریقت کا ان سے تعلق بحیثیت اوّل امام ولایت اور اہلِ بیت میں نمایاں شخصیت ہونے کی وجہ سے انہیں نبی کریم ﷺ کے بعد افضل شخصیت جانتے ہیں۔دلیل کے طور پر قرآن شریف میں آیت مؤدہ، آیتِ تطہیر، آیتِ مباحلہ، حدیثِ غدیر خم، اور حدیثِ ثقلین اور کئی مستند احادیث کو مصدق مانتے ہیں حالانکہ خلافتِ راشدہ کے تسلسل میں سیدناابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اوّل اور سیدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو دوّم اور سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ کو سوّم اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو خلیفۂ چہارم تسلیم کرتے ہیں اور ان پراپنا پورا ایمان اور عقیدہ رکھتے ہیں اور انہیں اپنا دینی پیشوا مانتے ہیں ان کی محبت میں اپنی جان نچھاور کرنے کے لئے بھی تیار ہیں اور ایسا ہی عقیدہ یا مزاج رکھنے والوں کے لئے فتاویٰ رضویہ(جلد۵/ص۱۷۹)میں امام اہلِ سنّت اعلیٰ حضرت احمد رضا خان صاحب بریلوی کی عبارت زیراکس کی شکل میں پیش کی جارہی ہے جس میں انہوں نے ایسا عقیدہ رکھنے والے علماء کے لئے یہ کہا ہے کہ یہ محض سنّیت ہے لیکن بہارِ شریعت کے مصنف قابل احترام صدرالشریعہ امجد علی رضوی صاحب نے ایسا عقیدہ رکھنے والوں کے لئے (بہارشریعت ص۳۸) میں لکھی ہوئی عبارت کے مطابق کہا ہے کہ وہ بدمذہب اور گمراہ ہیں۔(بدمذہب اور گمراہ سے مراد کیا یہودی، نصرانی،مشرک،کافر، آتش پرست یااسلام سے خارج ہوجانا ہے؟)اور اگر ایسا ہے تو وہ علمائے کرام یا سنی مسلمان جو غلبۂ محبت اہل بیت میں یادرج بالا احادیث اور قرآن شریف کی آیات کے ترجمے کی روشنی میں مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات کوافضل سمجھتے ہیں تو کیا وہ سب بدمذہب ہیں اور کیا ایمان سے خارج ہوگئے؟
سوال: بہار شریعت کی مندرجہ بالامذکورہ عبارت فتویٰ ہے یا ان کی ذاتی تحریر ہے؟ وضاحت فرمائیں ۔اگر کوئی شخص راسخ العقیدہ سنی ہے اور ایک پیر طریقت سے بیعت بھی ہےاور بزرگانِ دین کے نقشِ قدم پرچلنے والا ہے اور اپنی زندگی سنی مسلک کے اعتبار سے گزاررہا ہے اور مندرجہ بالامذکورہ فتاویٰ رضویہ (جلد۵/ص۱۷۹)کی عبارت پر یقین رکھتا ہے تو کیا ایسی صورتِ حال میں بھی وہ بدمذہب اور گمراہ ہوجائے گا؟
نوٹ: فضیلت کے اس باب میں امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ اور مجددالف ثانی رضی اللہ عنہ نے بھی کیا کوئی فتویٰ یا تحریر لکھی ہے ،وضاحت فرمائیں۔تحریر کے ساتھ منسلک (۱)فتاویٰ رضویہ(جلد۵/ص۱۷۹) کی زیراکس (۲) بہار شریعت (ص۳۸)کی زیراکس ہے۔
- فقط و السلام شاہنواز خان
- جواب
- الجواب بعون الملک العلام الوھاب
صورت مسئولہ میں جملہ انسان سیدنا حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔ تاہم یہ سب برابر نہیں ہیں۔پھر ان میں کسی کو ایمان کی دولت ملی اور کوئی محروم رہا۔ایمان والوں میں بعض کو علم اور بعض کو تقویٰ وپرہیزگاری دے کردوسروں پر فضیلت بخشی۔فضیلت کا یہ سلسلہ تجاوز کرکے افضلیت کو جاپہنچا۔اس مولیٰ کریم عزوجل نے مختلف مقبول حضرات کو مختلف اعتبارِ افضلیت سے نوازا۔سیدالانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے دیگر انبیاء کے اصحاب سے افضل بنایا۔حضور علیہ السلام کے صحابہ کرام میں بعض کو بعض پر فضیلت بخشی اس بات پر امت کا اجماع ہے کہ خلفائے راشدین تمام صحابہ کرام سے افضل ہیں۔یہاں خلافت راشدہ کے تسلسل کی بنیاد پر خلیفہ اول اور خلیفہ دوم،سوم،چہارم کا معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ افضلیت حضرت ابو بکر و حضرت عمر اور حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنھم کا معاملہ ہے۔جب افضلیت شیخین (حضرت صدیق اکبر اور حضرت عمر فاروق اعظم) پر امت کا اجماع ہوچکا ہے۔ تو چودہ ۱۴۰۰/سوسال بعد آج کسی بھی قسم کی ترمیم یا اجماع امت کے خلاف جس کا تعلق ایمان وعقیدہ سے ہے اس پر لب کشائی کرنا نہایت بدبختی وگمراہی ہوگی۔
تفضیلیہ عوام اہل سنت کو گمراہ کرنے کے لئے کبھی کہتے ہیں کہ فلاں کتاب میں لکھا ہے کہ بعض صحابہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی افضلیت کے قائل تھے۔ کبھی امام رازی کی عبارت پیش کرتے ہیں کبھی امام اہل سنت اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی کوئی عبارت اٹھالاتے ہیں۔ کبھی ابن عبدالبرکا سہارالیتے ہیں وغیرہما۔
عرض ہے کہ جب کسی عقیدہ پر امت کا اجماع ہوجائے تو اس کو قبول کرنا فرض عین ہوجاتا ہے پھر اگراس کے خلاف حدیث صحیح بھی آجائے تو قبول نہیں کی جائے گی۔اولاّ اس کی تاویل کی جائے گی بالفرض تاویل نہ ہوسکے تو اسے رد کردیا جائے گا۔ غور کرنے کا مقام ہے کہ جب اجماع کے مقابلہ میں آنے والی حدیث صحیح بھی قابل قبول نہیں تو پھر بعض علماء کے اقوال کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے۔شاذونادر روایات تو ہر مسئلہ میں مل جاتی ہیں۔مزید یہ کہ جو اقوال عام طور پر پیش کئے جاتے ہیں وہ کسی اور پس منظر میں کہے گئے ہوتے ہیں، جنہیں تفضیلیہ اپنی کم علمی کے باعث اپنے باطل موقف کی دلیل بنائے پھرتے ہیں۔ اسی طرح فتاویٰ رضویہ کی عبارت جو تفضیلیہ اپنے عقائد مسمومہ کیلئے بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔جسے استفتاءمیں بھی درج کیا گیا ہے تاہم وہ عبارت ایک خاص پس منظر میں کہی گئی ہیں۔جسے افضلیت کے باب میں دلیل بنانا حماقت ہے۔تاہم متذکرہ عبارت کا تعلق مسئلہ ھذا سے ہرگز نہیں۔ امام اہل سنت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی عبارت سے صرف اتنی بات واضح ہورہی ہے کہ زبان متاخرین میں شیعہ روافض کو کہا جاتا ہے اور اصطلاح محدثین میں تشیع اور رفض میں فرق پایا جاتا تھا۔چنانچہ شروع وقت کے چند محدثین محض غلبہ محبت اہل بیت کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم کو شیعائیت سے تعبیر کرتے۔حالانکہ یہ محض سنیت ہے اور جو تمام خلفائے کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ حسن عقیدت رکھے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان میں افضل جانے۔بلاشک وشبہ گمراہ بدمذہب ہے۔جیسا کہ اعلیٰ حضرت مجدداعظم فرماتے ہیں۔”تمام اہل سنت کا عقیدہ اجماعیہ ہے کہ صدیق اکبر اور فاروق اعظم رضی اللہ عنھما حضرت علی کرم اللہ وجھہ الکریم سے افضل ہیں۔ائمہ دین کی تصریح ہے کہ جو مولیٰ علی کو شیخین پر فضیلت دے مبتدع بدمذہب ہے”(فتاویٰ رضویہ جلد۶ص۶۲۲)
یہی عقیدہ صدرالشریعہ علیہ الرحمہ نے بہارِ شریعت حصہ اول امامت کا بیان صفحہ ۳۸ میں فرمایا۔یہی اہل سنت کا اجماعیہ عقیدہ ہے جو کہ عین اسلامی عقیدہ کے مطابق بالکل درست ہے گمراہ بدمذہب کا معنی ومطلب یہودی، نصرانی،مشرک، کافر، آتش پرست، اسلام سے خارج، کسی بھی ڈکشنری میں نہیں بلاوجہ علماء سے دشمنی کی آڑ میں مسلمانوں کو کافر بنانا محض فتنہ انگیزی ہے۔البتہ جو افراد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات کو خلفائے ثلاثہ سے افضل سمجھتے ہیں وہ سب بدمذہب ہیں۔لیکن کافر نہیں، جیسا کہ امام اہلسنت امام احمد رضا محدث بریلوی فرماتے ہیں کہ جو تفضیلی کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہ خیر سے یاد کرتاہو۔خلفائے اربعہ رضوان اللہ تعالیٰ علیھم کی امامت برحق جانتا ہو، صرف امیر المومنین مولیٰ علی کو شیخین رضی اللہ تعالیٰ عنھم سے افضل مانتا ہو۔انہیں کفر سے کچھ علاقہ نہیں بدمذہب ضرور ہے۔ (فتاویٰ رضویہ جلد۱۱ص۳۴۶)
فضیلت کے اس باب میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور مجددالف ثانی رضی اللہ عنہما نے بھی کیا کوئی فتویٰ یا تحریر لکھی ہے آپ نے وضاحت طلب کی ہے؟ جی ہاں! ان دونوں نے جو تحریر فرمایا ہے ان شاء اللہ ہم ان دونوں حضرات کے علاوہ دیگر ائمہ کرام اور مجتہدین کی تحریر فتاویٰ عقیدہ کو بھی حوالہ کیساتھ پیش کریں گے۔ اور اس مطلب شریف پر ان حضرات کا قرآن عظیم واحادیث سید المرسلین ﷺ وآثارِ اہل بیت کرام وصحابہ عظام وارشادات امیر المومنین حضرت علی حیدررضی اللہ عنھم ونصوص ائمہ وعلماء واولیاء وعرفاقدست اسرارہم بھی بیان کریں گے جن سے دریا لہرارہے ہیں۔ہر بچہ جانتا ہے کہ اہل سنت کی تمام کتب عقائد میں افضل البشر بعدالانبیاء ابو بکر صدیق ہیں۔
حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلا شعار اہل سنت کا افضلیت شیخین بتایا یعنی حضرت سیدنا صدیق اکبر اور حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنھما کوتمام امّت سے افضل جانے اور یہی عقیدہ حمیدہ خود امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اپنا عقیدہ تھا۔ جسے خود انہوں نے اپنی زبان مبارک سے صحابہ وتابعین سے بیان فرمایا ہے جس کو ۸۰/اسی صحابہ کرام نے اور تابعین نے حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجھہ سے ہی روایات فرمایا ہے۔
شرح فقہ اکبر میں ہے کہ چونکہ صحابہ کرام حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی افضلیت کے قائل تھے۔ اسی لئے بڑے بڑے ائمہ کرام اس پر کاربند رہے۔جیسا کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ، حضرت امام شافعی، حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیھم اجمعین حضرت صدیق اکبر کو افضل مانتے ہیں۔جیسا کہ حضرت امام اعظم نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ انبیاء کرام کے بعد تمام لوگوں سے افضل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں پھر حضرت عمر بن خطاب پھر حضرت عثمان بن عفان ذوالنورین پھر حضرت علی ابن ابی طالب رضوان اللہ علیھم اجمعین ہیں۔ (شرح فقہ اکبر صفحہ ۶۱)
اور الصواعق المحرقہ میں ہے کہ :حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ خلفائے اربعہ کی افضلیت ان کی ترتیب خلافت کے مطابق ہے یعنی امام برحق اور خلیفہ مطلق حضور خاتم النبین ﷺ کے بعد حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں اور ان کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے بعد حضرت سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے بعد حضرت سیدنا علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ تمام اہل حق کا اجماع ہے کہ انبیاء کرام علیھم الصلوٰۃ والسلام کے بعد سب سے افضل حضرت سیدنا ابو بکر صدیق اور ان کے بعد سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنھما ہیں۔(مکتوبات امام ربانی دفتر سوم مکتب ۱۷عقیدہ چہارم ودہم ص۳۷)
نیز حضور صدرالشریعہ حضرت علامہ مولانا امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ نے بہارِ شریعت حصہ اول میں جو تحریر فرمایا یہ عقیدہ تمام اہلسنت کا عقیدہ اجماعیہ ہے کہ حضرت صدیق اکبر و حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مولیٰ علی کرم اللہ تعالیٰ وجھہ الکریم سے افضل ہیں اور بہار شریعت میں عین عقیدہ کے مطابق ہی تحریر کیاگیا ہے۔جیسا کہ شرح عقائد النسفیہ میں ملاحظہ فرمائیں۔اوافضل البشربعد نبینا(ای بعدالانبیاء) ابو بکر الصدیق ثم الفاروق ثم عثمان ذوالنورین ثم علی المرتضیٰ(شرح العقائد النسفیہ ، مبحث افضل البشر بعد نبینا ص ۱۴۹۔۱۵۰)
اور فتاویٰ بزازیہ میں ہے کہ :۔ الرافضی ان کان یفضل علیاً علیھما فھو مبتدع۔(الفتاویٰ البزازیہ’کتاب السیر’ نوع فیما یتصل بہ الخ جلد ۶ص ۳۱۹)
اور فتح القدیر میں ہے کہ :۔ وفی الروافض ان من فضل علیاً رضی اللہ عنہ علی الثلاثۃ فمبتدع (فتح القدیر، باب الامامۃ جلد ۱ص۳۰۴)
اور بحر الرائق میں ہے:۔ والرافضی ان فضل علیاً علیٰ غیرہ فھو مبتدع اور الصواعق المحرقۃ میں ہے حضرت امام محمد ابن ادریس شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ تمام صحابہ کرام اور تابعین عظام کا اس بات پر اجماع ہے کہ تمام امت سے افضل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں،پھر حضرت عمر فاروق پھر عثمان بن عفان پھر حضرت علی المرتضیٰ رضوان اللہ علیھم اجمعین ہیں۔(فتح الباری شرح الصحیح البخاری جلد ۸ص۱۵)
حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا انبیاء کرام کے بعد لوگوں میں سب سے افضل کون ہے؟ فرمایا۔ حضرت ابو بکر صدیق پھر حضرت عمر فاروق (الصواعق المحرقۃ ص ۵۷)
اور الیواقت الجواہر میں ہے:۔ حضرت شخ تقی الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ان ابابکر رضی اللہ عنہ افضل من سائرالامۃ المحمدیہ وسائرامم الانبیاء واصحابھم لانہ کان ملازمالرسول اللہ ﷺ بالصدیقیۃ لزوم الظل للشاخص حتیٰ فی میشاق الانبیاء لذلک کان اول من صدق رسول اللہ ﷺ ۔یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تمام امت محمدیہ سے اور تمام انبیاء کی ساری امتوں اور ان کے اصحاب سے افضل ہیں کیونکہ آپ رسول ﷺ کے ساتھ اس طرح لازم تھے۔جس طرح سایہ جسم کے ساتھ لازم ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ میشاق انبیاء میں۔اور اسی لئے آپ نے سب سے پہلے نبی کریم ﷺ کی تصدیق فرمائی۔(الیواقت الجواہر جز ۲ص۳۲۹)
اور فتح الباری میں ہے کہ :۔ شارح بخاری حضرت علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :۔ ان الاجماع انعقددبین اھل السنّۃ ان ترتیبھم فی الفضل کترتیبھم فی الخلافۃ رضی اللہ عنھم اجمعین۔یعنی اہل سنت وجماعت کے درمیان اس بات پر اجماع ہے کہ خلفائے راشدین میں فضیلت اسی ترتیب سے ہے۔جس ترتیب سے خلافت ہے۔(فتح الباری شرح الصحیح البخاری جلد۷ص۲۹تحت الحدیث ۳۶۷۸) جیسا کہ احادیث میں وارد ہوا ہے کہ ابن عساکربطریق سعد بن طریف اصبع بن بیاتہ سے روایت فرماتے ہیں۔قلت لعلی یا امیر المومنین من خیر الناس بعد رسول اللہ ﷺ قال ابو بکر قلت ثم من قال ثم عمر قلت ثم من قال ثم عثمان قلت ثم من، قال انا رایت رسول اللہ ﷺ بعینی ھاتین والافعمیتا وبازنی ھاتین والافصمتا یقول ماولد فی الاسلام مولودازکی ولا اطھر ولاافضل من ابی بکر ثم عمر۔یعنی میں نے مولیٰ علی سے عرض کیا یا امیر المومنین! رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے افضل کون ہے؟ فرمایا حضرت ابو بکر۔ میں نے کہا ! پھر کون؟ فرمایا حضرت عمر۔ میں نے عرض کیا پھر کون ہے؟ فرمایا حضرت عثمان ۔ میں نے کہا پھر کون؟ فرمایا "میں” اور میں نے اپنے آنکھوں سے نبی ﷺ کو دیکھا۔ورنہ یہ آنکھیں پھوٹ جائیں اور ان کانوں سے فرماتے سنا ورنہ یہ کان بہرے ہوجائیں حضور فرماتے تھے۔اسلام میں کوئی شخص ایسا پیدا نہ ہوا۔جو ابو بکر پھر عمر سے زیادہ پاکیزہ اور زیادہ فضیلت والاہو۔(جامع احادیث ابن عساکرحدیث ۸۰۲۳دارالکفر جلد۱۶ ص ۲۹۴)
ایک دن نبی کریم ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا۔اور پھر توجہ فرمائی تو حضرت ابو بکر صدیق نظر نہ آئے تو آپ نے ان کا نام لے کر دوبار پکارا۔پھر ارشاد فرمایا۔بے شک روح القدس جبرئیل امین علیہ السلام نے ابھی مجھے خبر دی کہ آپ کے بعد آپ کی امت میں سب سے بہتر ابو بکر صدیق ہیں۔(معجم اوسط جلد۵،ص۱۸،حدیث ۶۴۴۸)
جگر گوشہ حضرت علی المرتضیٰ حضرت محمد ابن حنفیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ میں نے اپنے والد محترم امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا؟ نبی کریم ﷺ کے بعد سب سے افضل کون ہے؟ حضرت علی نے ارشاد فرمایا کہ ابو بکر۔ میں نے پوچھاپھرکون؟ ارشاد فرمایا حضرت عمر۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں نے دوبارہ پوچھا کہ پھر کون؟ تو شاید آپ حضرت عثمان کا نام لے لیں گے، اس لئے میں نے فوراً کہا کہ۔ حضرت عمر کے بعد تو آپ ہی سب سے افضل ہیں۔ارشاد فرمایا۔میں تو ایک عام سا آدمی ہوں۔(بخاری شریف جلد۲ص۵۲۲حدیث ۳۶۷۱)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں۔ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو سب سے افضل شمار کرتے تھے۔ان کے بعد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اور ان کے بعد حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو۔(بخاری جلد۲ص۵۱۸حدیث ۳۶۵۵)
جیسا کہ جلیل القدر حنفی محدث حضرت امام ابو جعفر احمد ابن محمد طحاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ۔ "ونثبتّ الخلافۃ بعد رسول اللہ ﷺ اولاًلابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ تفضیلاً لہ وتقدیماً علی جمیع الامۃ ثم لعمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ثم لعثمان رضی اللہ عنہ ثم لعلیِ بن ابی طالب رضی اللہ عنہ” یعنی ہم رسول ﷺ کے بعد سب سے پہلے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت ثابت کرتے ہیں۔اس وجہ سے کہ آپ کو تمام امت پر افضلیت سبقت حاصل ہے، پھر ان کے بعد حضرت عمر فاروق پھر حضرت عثمان بن عفان پھر حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنھم اجمعین کے لئے خلافت ثابت کرتے ہیں(متن العقیدہ الطحاویہ ص۲۹)
فضیلت کے باب میں اس کے علاوہ متعدد مجدددین کے اقتباسات بھی درج کئے جاتے ہیں:۔ کہ حضرت امام شرف الدین نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ”اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سب صحابہ کرام علیھم الرضوان سے افضل حضرت سیدنا ابو بکر صدیق پھر حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنھما ہیں۔(شرح صحیح مسلم شریف کتاب فضائل الصحابہ جلد۸الجز ۱۵ص۱۴۸)
امام محمد بن حسین بغوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق،حضرت عمر فاروق ،حضرت عثمان غنی۔حضرت سیدنا علی شیر ِ خدا رضی اللہ عنھم انبیاء ومرسلین کے بعد تمام لوگوں میں سب سے افضل ہیں،اور پھر ان چاروں میں افضلیت کی ترتیب خلافت کی ترتیب سے ہے کہ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلے خلیفہ ہیں لھذا وہ سب سے افضل،ان کے بعد حضعرت سیدنا عمر فاروق ،ان کے بعد حضرت سیدنا عثمان غنی، ان کے بعد سیدنا علی شیرِ خدا رضی اللہ تعالیٰ عنھم افضل ہیں۔(شرح السنۃ للبغوی،کتاب الایمان باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ جلد ۱ص۱۸۲)
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:۔ ان الاجماع انعقد بین اھل السنۃ انّ ترتیبھم فی الفضل کتر تیبھم فی الخلافۃ رضی اللہ عنھم اجمعین۔یعنی اہل سنت وجماعت کے درمیان اس بات پر اجماع ہے کہ خلفائے راشدین میں فضیلت اسی ترتیب سے ہے۔جس ترتیب سے خلافت ہے (یعنی حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب سے افضل ہیں کہ وہ سب سے پہلے خلیفہ ہیں۔اس کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق،اس کے بعد حضرت سیدنا عثمان غنی،اس کے بعد حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین(فتح الباری شرح صحیح البخاری،کتاب فضائل اصحاب النبی باب لوکنت متخذاخلیلا،تحت الحدیث ۳۶۷۸جلد ۷ص۲۹) امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:۔اہل سنت وجماعت کا اس بات پر اجماع ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد تمام لوگوں میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں پھر سیدنا عمر فاروق، اس کے بعد سیدنا عثمان غنی، اس کے بعد حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین ہیں۔(تاریخ الخلفاء ص۳۴)
امام عبدالوہاب شعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انبیاء کرام علیھم الصلوٰۃ والسلام کی امت کے اولیاء کرام میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں پھر سیدنا عمر فاروق،اس کے بعد سیدنا عثمان غنی، اس کے بعد حضرت سیدنا علی المرتضیٰ شیر خدا رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین ہیں۔(الیواقیت والجواہر،المبحث الثالث والاربعون الجزاء الثانی ص۳۲۸)
امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت مبارکہ: اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ،صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ﴰغَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ ۔حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امامت پر دلالت کرتی ہیں کیونکہ ان دونوں آیتوں کا معنی ہے کہ "اے اللہ ہمیں ان لوگوں کے راستے پر چلا کہ جن پر تیرا انعام ہوا۔ اور دوسری آیت مبارکہ میں فرمایا۔ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ(پارہ ۵سورۃ النساء آیت ۶۹) یعنی اللہ نے انبیاء اور صدیقین پر انعام فرمایا۔اور اس بات میں کسی قسم کا کوئی شک وشبہ نہیں کہ صدیقین کے امام اور ان کے سردار حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور تمام صدیقین تھے۔ کیونکہ اگر وہ ظالم ہوتے تو ان کی اقتداء جائز ہی نہ ہوتی۔لھذا ثابت ہواکہ سورۃ الفاتحہ کی یہ آیت مبارکہ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امامت پر دلالت کرتی ہے۔(التفسیر الکبیر الفاتحہ ۵۔۶جلد ۱ص۲۲۱)
علامہ ابن حجر ہیتمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: علمائے امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس امت میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اور ان کے بعد حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں(الصواعق المحرقہ الباب الثالث ص۵۷۰)
علامہ ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: وہ قول جس پر میرا اعتقاد ہے اللہ کے دین پر میرا مکمل اعتماد ہے کہ افضلیت ابو بکر صدیق قطعی ہے۔اس لئے کہ نبی کریم نور مجسم ﷺ نے آپ رضی اللہ عنہ کو بطریق نیابت امامت کا حکم دیا۔ اوریہ بات دین سے معلوم ہے کہ جو امامت میں اولیٰ ہے وہ افضل ہے حالانکہ وہاں حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے اور اکابر صحابہ کرام علیھم الرضوان بھی تھے۔اس کے باوجود نبی اکرم ﷺ کے علم میں تھی۔یہاں تک کہ ایک مرتبہ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امامت کے لئے معین کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ افضلیت صدیق اکبر حضورنبی کریم رؤفالرحیم ﷺ کے علم میں تھی۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مصلّی مبارک سے پیچھے ہٹے اور حضرت سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ کو آگے کیا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا”ابو بکر کےسواکوئی اور امامت کرے اللہ اور سب مومن انکار کرتے ہیں(شرح الفقہ الاکبرص۶۴)
علامہ قسطلانی حضرت علامہ احمد بن محمد بن ابو بکر بن عبدالملک قسطلانی علیھما الرحمۃ فرماتے ہیں کہ :۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد ساری مخلوق میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں اور ان کے بعد حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں(ارشادالساری، کتاب فضائل اصحاب النبی وباب مناقب عثمان بن عفّان، تحت الحدیث ۳۶۹۸،جلد۸،ص۲۱۵)
میر سید عبدالواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:۔ اس پر سبھی اہلسنت کا اجماع ہے کہ نبیوں کے بعد دوسری تمام مخلوق سے بہتر حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ان کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، ان کے بعد سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے بعد سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ (سبع سنابل ص۷)
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ افضلیت ان کی ترتیب خلافت کے مطابق ہے۔ یعنی تمام صحابہ سے افضل سیدنا ابو بکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر فاروق پھر سیدنا عثمان غنی پھر حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین ہیں(تکمیل الایمان ص۱۰۴)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ:۔ اور رسول اللہ ﷺ بعد امام برحق حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں پھر حضرت عمر فاروق پھر حضرت عثمان غنی پھر حضرت علی المرتضیٰ رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین ہیں(تفھیمات الھیہ جلد ۱ص۱۲۸)
علامہ عبدالعزیز پرہاروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ: صوفیائے کرام کا بھی اس بات پر اجماع ہے کہ امت میں پہلے سیدنا ابو بکر صدیق ہیں ہھر سیدنا عمر فاروق پھر سیدنا عثمان غنی پھر سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین سب سے افضل ہیں۔(النبراس شرح شرح العقائد ص۴۹۲)
پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ آیت : محمدرسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم تراھم رکعا سجدا یبتغون فضلا من اللہ ورضوانا سیماھم فی وجوھھم من اثر لسجود (پارہ ۲۶ سورۃ الفتح آیت ۲۹) ترجمہ:۔ محمد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ہیں۔اور آپس میں نرم دل تو انہیں دیکھے گا رکوع کرتے سجدے میں گرتے اللہ کا فضل ورضا چاہتے ان کی علامت ان کے چہروں میں ہیں سجدوں کے نشان سے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خلفائے اربعہ رضوان اللہ تعالیٰ عنھم کی ترتیب خلافت کی طرف واضح اشارہ ہے۔ چنانچہ والذین معہ سے خلیفہ اول حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مراد ہیں۔اشداء علی الکفار سے خلیفہ ثانی ۲؎ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور رحماء بینھم سے خلیفہ ثالث ۳؎ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور تراھم رکعاسجدایبتغون فضلا من اللہ ورضوانا سیماھم فی وجوھھم من اثر لسجود سے خلیفہ رابع ۴؎ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ شیر خدا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صفات مخصوصہ کی طرف اشارہ ہے کیونکہ حضور علیہ السلام کی معیت (ساتھ) اور صحبت میں حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف اور کفار پر شدت میں حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی جانب اور حلم وکرم میں حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہیں اور عبارت واخلاص میں حضرت سیدنا مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ خصوصی شان رکھتے (ان شانوں کی ترتیب کے اعتبار سے ظاہر یہی فضیلت کی ترتیب ہے۔(مہرِ منیر،ص۴۲۴اللباب فی علوم الکتاب الفتح ۲۹جلد ۱۷ص۵۱۷)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرات خلفائے اربع رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین تمام مخلوق الٰہی سے افضل ہیں۔ پھر ان کی باہم ترتیب یوں ہے کہ سب سے افضل صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پھر فاروق اعظم پھر فاروق اعظم پھر عثمان غنی پھر مولیٰ علی رضی اللہ عنھم ہیں(فتاویٰ رضویہ جلد ۲۸ص۴۷۸)
صدر الافاضل،استاذ العلماء والمشائخ حضرت علامہ مفتی سید محمد نعیم الدین محدث مرادآبادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اہل سنت وجماعت کا اجماع ہے کہ انبیاء کرام علیھم الصلوٰۃ والسلام کے بعد تمام عالم سے افضل حضرت سیدنا ابو بکر صدیق ہیں۔ ان کے بعد سیدنا عمر فاروق اور ان کے بعد حضرت سیدنا عثمان غنی اور ان کے بعد سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنھم ہیں (سوانح کربلا ۳۸)
حضرت فقیہ اعظم ہند، استاذ المحدثین حضرت علامہ مفتی شاہ محمد عبدالرشید خان محدث فتحپوری علیہ الرحمۃ والرضوان فرماتے ہیں کہ بعد انبیاء مرسلین وتمام مخلوقات الٰہی، انس وجن وملک سے افضل حضرت صدیق اکبر ہیں پھر حضرت عمر فاروق اعظم پھر حضرت عثمان غنی پھر حضرت مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین ہیں جیسا کہ عامۃ کتب فقہ میں ہے۔المعتمد المستند میں ہے افضل الاولیاء المحمد یین ابو بکر ثم عمر، ثم عثمان، ثم علی رضی اللہ عنھم(حاشیہ ۳۱۶؎ص۱۹۱) اسی طرح الحدیقۃ الندیۃ میں ہے افضلھم ای الاولیا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ثم عمر بن الخطاب الفاروق ثم عثمان ابن عفان ذوالنورین ثم علی المرتضیٰ ملتقطاً۔(الحدیقۃ الندیۃ جلد۱ص۲۹۳) (فتاویٰ فقیہ اعظم ہند)
الحاصل امام اہل سنت فرماتے ہیں کہ :۔ میں کہتا ہوں اور تحقیق یہ ہے کہ تمام اجلہ صحابہ کرام علیھم الرضوان مراتب ولایت میں اور خلق سے فنا اور حق میں بقاء کے مرتبہ میں اپنے ماسواتمام اکابر اولیائے عظام سے وہ جو بھی ہوں ،افضل ہیں۔ اور ان کی شان ارفع واعلیٰ ہے اس سے کہ وہ اپنے اعمال سے غیر اللہ کا قصد کریں۔لیکن مدارج متفاوت ہیں اور مراتب ترتیب کے ساتھ ہیں اور کوئی شئی کسی شئی سے کم ہے اور کوئی فضل کسی فضل کے اوپر ہے اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مقام وہاں ہے جہاں نہایتیں ختم اور غایتیں منقطع ہوگئیں۔ اس لئے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حضرت امام محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کی تصریح کے مطابق پیشواؤں کے پیشوااور تمام کے لگام تھامنے والے اور ان کا مقام صدیقیت سے بلند اور تشریع نبوت سے کم تر ہے اور ان کے درمیان اور ان کے مولائے اکرم محمد رسول اللہ ﷺ کے درمیان کوئی نہیں۔(فتاویٰ رضویہ جلد۲۸ص۶۸۳)
یہی جمیع اہل سنت کا موقف اور عقیدہ ہے اور ان شاء اللہ تادم قیامت یہ سلسلہ جاری رہے گا بحمدہ تعالیٰ ہم نے مستند حوالہ جات کی روشنی میں جمیع اہل سنت کا موقت پیش کردیا ہے چونکہ تمام علمائے امت کا اجماع ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تمام انبیائے کرام علیھم السلام کے بعد سب سے افضل ہیں۔ پھر دیگر خلفائے راشدین ہیں۔ اگر کوئی سیدنا علی شیر خدا کو افضل جانے تو اس سے وہ کافر نہیں ہوتا۔لیکن جمہور علمائے اہل سنت اور عقیدہ اہلسنت اجماعیہ کی مخالفت لازم آئے گی اور مذہب اہلسنت والجماعت ہی دیوار نجات ہے لہذا یہ درست طریقہ نہیں۔ نیز شریعت مطہرہ میں ایسے شخص پر گمراہ وبدمذہب حکم ہے۔
- واللہ اعلم باالصواب